Top Posts

10/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Gunahgaar Jawan Ki Toba: Kya Yeh Kahani Aapki Zindagi Badal Deggi?


گنہگار کی توبہ کا واقعہ 


 بسم اللہ الرحمن الرحیم اس پاک پروردگار کے بابرکت نام سے شروع کرتا ہوں جس نے مجھے بولنا سکھایا محترم ناظرین آج کا ہمارا موضوع آج کی ہماری کہانی ایسے نوجوان کی کہانی جو گناہوں میں پڑا ہوا تھا ایک رئیس زادہ تھا زندگی کی ہر آسائش اسے میسر تھی پھر اس نے گناہوں کو چھوڑ کر اللہ پاک کی جانب اپنا سفر شروع کیا 

اور اس کا اہتمام کیا ہوا آئیے ویڈیو میں ملاحظہ کرتے ہیں محمد بن سماعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگوں میں وہ موسٰی بن محمد بن سلیمان الہاشمی بہت ہی نازک پررائیس زادہ تھا دل کی خواہشات پورا کرنے میں ہر وقت مگن رہتا تھا کھانے پینے میں لباس میں لولاک میں خواہشات اور لازات کی ہر موم میں اعلی درجہ پر تھا 

لڑکے لڑکیوں میں ہر وقت مگن رہتا تھا اس کو کوئی غم تھا نا فکر خود بھی نہایت حسین تھا اللہ تعالی کے ہرنوں کی دنیاوی نعمت اس پر پوری تھی اس کی آمدنی تین لاکھ تین ہزار دینار اشرفیاں سالانہ تھے جو سارے کے سارے اسی مستی میں خرچ ہو جاتی تھی ایک اونچا بالا خانہ تھا جس میں کئی کھڑکیاں اشارہ آپ کی طرف کُھلی تھی

 جن میں بیٹھ کر وہ راستہ چلنے والوں کے نظارے کرتا ہے اور کئی کھڑکیاں دوسری جانب باغ کی طرف کُھلی تھی جن میں بیٹھ کر وہ باغ کی ہوائیں کھاتا خوشبو سونگتا اس کے محل میں ایک ہاتھی تان کا قبا تھا جو چاندنی کے میخوں سے جُڑا ہوا تھا اور سونے کا اس پر جھوم تھا اس کے اندر ایک تخت تھا جس پر موتیوں کی چادر تھی موتیوں میں سے ہاشمی کے سر پر موتیوں کا امامہ تھا 

اس کمرے میں اس کے یار احباب جمع رہتے خود عام ادب سے پیچھے کھڑے رہتے تھے سامنے ناچنے گانے والیاں کمرے سے باہر جمع رہتی ہیں جب گانا سننے کو دل چاہتا وہ ستار کی طرف ایک نظر اٹھاتا ہے اور سب حاضر ہو جاتی تھی اور جب بند کرنا چاہتا تو ہاتھ سے ستار کی طرف اشارہ کر دیتا گانا بند ہو جاتا اور رات کو ہمیشہ جب تک نیند نہیں آتی یہی شُغل رہتا تھا

 اور جب شراب کے نشے سے اس کی عقل جاتی رہتی یارانِ مجلس اُٹھ کر چلے جاتے اور جو ان سے لڑکی کو چاہتا پکڑ لیتا اور رات بھر اس کے ساتھ خلوت کرتا رہتا تھا صبح کو وہ شطرنج میں مشغول ہو جاتا تھا اس کے سامنے کوئی رنج و غم کی بات کسی کی موت کسی کی بیماری کا تذکرہ بالکل نہ آتا اس کی مجلس میں ہر وقت ہسی اور خوشی کی باتیں، ہنسانے والے قصے اور اسی قسم کے تذکرے رہتے تھے ہر دن نئی نئی خوشبوئیں جو اس زمانے میں کہیں نہ ملتی وہ روزانہ اس کی مجلس میں آتی تھی عمدہ عمدہ خوشبوں کے گلدستے وغیرہ حاضر کیے جاتے تھے

 اسی حالت میں اس کے 27 برس گزرے ایک رات وہ حسبِ معمول اپنے کمرے میں تھا اس کے کان میں ایک ایسی سُریلی آواز پڑی جو اس کے گانے والوں کی آواز سے بالکل جدا تھی لیکن بڑی دلکش تھی اس کی آواز نے کان میں پڑھتے ہی اس کو بے چین سا کر دیا اپنے گانے والیوں کو بند کر دیا اور کھڑکی سے باہر منہ نکال کر اس آواز کو سننے لگا وہ آواز کبھی کان میں پڑ جاتی کبھی بند ہو جاتی اس نے اپنے خُدام کو حکم دیا کہ یہ آواز جس شخص کی آ رہی ہے اس کو پکڑ کر میرے سامنے لاؤ

 شراب کا دور چل رہا تھا خُدام جلدی سے اس آواز کی طرف دوڑے خُدام مسجد میں پہنچے جہاں ایک جوان نہایت ضعیف بدن زرد رنگ گردن سُوکھی ہوئی ہونٹوں پر خشکی آئی ہوئی بال بکھرے پیٹ کمر سے لگا ہوا دو ایسی چھوٹی چھوٹی لُغیاں اس کے بدن پر کہ ان سے مشکل سے ستر ڈھک سکے مسجد میں کھڑا اپنے رب کے ساتھ مشغول تلاوت ہے یہ لوگ اس کو پکڑ کر لے گئے نہ مجھ سے کچھ کہا نہ بتایا ایک دَم اس کو مسجد سے نکال کر وہاں بالا خانہ پر لے جا کر اس کے سامنے پیش کر دیا

 حضور بندہ حاضر ہے وہ شراب کے نشے میں کہنے لگا یہ شخص کون ہے انہوں نے عرض کیا حضور کوئی شخص ہے جس کی آواز آپ نے سُنی تھی اس نے پوچھا کہ تم اس کو کہاں سے لائے ہو کہنے لگے حضور مسجد میں کھڑا قرآن شریف پڑھ رہا تھا اس رئیس نے اس نوجوان سے پوچھا کہ تم کیا پڑھ رہے تھے اس نے اعوذ باللہ پڑھ کر یہ آیتیں بتائیں جن کا ترجمہ یہ ہے، اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے اس لیے ان اعمال میں لالچ کرنا چاہیے

 جن سے یہ نعمتیں حاصل ہوں اور ان شراب کی آمیزش تسلیم کے پانی سے ہوگی شراب میں کوئی چیز ملائی جاتی ہے تو اس سے اس کا جوش زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ تسلیم جنت کا ایک ایسا چشمہ ہے جس سے مقرب لوگ پانی پیتے ہیں یعنی اس چشمے کا پانی مقرب لوگوں کو تو خالص ملے گا اور نیک لوگوں کو شراب میں اس میں سے تھوڑا سا ملا دیا جائے گا

 اس کے بعد اس نوجوان نے کہا ارے دھوکے میں پڑے ہوئے تیرے اس محل کو تیرے اس بالا خانہ کو تیرے ان فرشوں کو ان سے کیا مناسبت وہ بڑی اونچی مسیحریہ ہے جن پر فرش بِچھے ہوئے ہیں ایسے فرش جو بہت بلند ہے وہ ریشم کے ہوں گے وہ لوگ عجیب و غریب خوبصورت کپڑوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہیں اللہ کا ولی پر سے ایسے دو چشموں کو دیکھے گا جو دو باغوں کو جا رہے ہوں گے

 ان دونوں باغوں میں ہر قسم کے میوے کی دو دو قسمیں ہوں گی کہ ایک ہی قسم کے میوے کے تو مزے ہوں گے وہ میوے نا تو ختم ہوں گے نہ ان کی کچھ روک ٹوک ہوگی جیسا دنیا میں باغ بالغ توڑنے سے روکتے ہیں وہ لوگ پسندیدہ زندگی میں بہت بلند مقام پر جنت میں ہوں گے ایسی اعلی مقام جنت میں ہوں گے جہاں کوئی بُری بات نہ سُنیں گے اس میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گے

 اور اس میں اونچے اونچے تخت بچھے ہوئے ہوں گے اور آب خورے رکھے ہوئے ہوں گے اور برابر گدے لگے ہوئے ہوں گے اور سب طرف کالین ہی کالین ہوں گے کہ جہاں چاہیں بیٹھیں ساری جگہ صدر نشین ہے وہ لوگ سایوں اور چشموں میں رہتے ہوں گے اس کے جنت کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہوں گے کبھی نہ ختم ہوں گے اس کا سایہ ہمیشہ رہنے والا ہوگا یہ تو انجام ہے متقی لوگوں کا

 اور کافروں کا انجام دوزخ ہے وہ کیسی سخت آگ ہوگی اللہ تعالی ہی محفوظ رکھے بے شک مجرم لوگ جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے وہ عذاب کسی وقت بھی ان سے ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ لوگ اس میں مایوس پڑے رہیں گے بے شک مجرم لوگ بڑی گمراہی اور حماقت کے جنون میں پڑے ہیں ان کو اپنی حماقت اس دن معلوم ہوگی جس دن منہ کے بَل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے

 اور ان سے کہا جائے گا دوزخ کی آگ لگنے کا اس میں جلنے کا مزہ چکھو وہ لوگ آگ میں اور کھولتے ہوئے پانی میں اور کالے دھوئیں کے سائے میں ہوں گے مجرم آدمی اس بات کی تمنا کرے گا کہ اس دن کے عذاب سے چھوٹنے کے لیے اپنے بیٹوں اپنی بیوی کو بھائی کو اور سارے کُنبے کو جن میں وہ رہتا تھا اور تمام روئے زمین کے آدمیوں کو اپنی فدیے میں دے دے اور کسی طرح عذاب سے بچ جائے

 لیکن یہ ہرگز ہرگز نہ ہوگا آگ ایسی شُعلہ والی ہے کہ بدن کی کھال تک اُتار دے گی اور وہ آگ ایسے شخص کو خود بُلائے گی جس نے دنیا میں حق سے پیٹ پھیری ہوگی اور اللہ تعالی کی اطاعت سے بے روخی کی ہوگی اور ناحق مال جمع کیا ہوگا وہ ہاشمی رئیس فقیر کا کلام سن کر اپنی جگہ سے اٹھا اور فقیر سے پلے رکھ کر خوب چلا کر رویا اور اپنے سب اہل مجلس یہ کہہ دیا کہ تم سب چلے جاؤ

 اور فقیر کو لے کر صحن میں گیا  اور ایک بوریوں پر بیٹھ گیا اور اپنی جوانی پر نوحہ کرتا رہا اپنی حالت پر روتا رہا اور فقیر اس کو نصیحت کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی اس نے اپنے سب گناہوں سے اول فقیر کے سامنے توبہ کی اور اللہ تعالی سے اس کا عہد کیا کہ آگے کبھی کوئی گناہ نہ کرے گا پھر دوبارہ دن میں سارے مجمعے کے سامنے توبہ کی اور مسجد کا کونا سنبھال کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہو گیا 

اور اور اپنا سارا ساز و سامان مالومطع سب کچھ فروخت کر کے صدقہ کر دیا اور تمام نوکروں کو موقوف کر دیا اور جتنی چیزیں ظلم و ستم سے لی تھی سب اہل حقوق کو واپس گئے غلام اور باندیوں میں سے بہت سے آزاد کیے اور بہت سے فروخت کر کے قیمت صدقہ کر دیے اور موٹا لباس اور جو کی روٹی اختیار کی تمام رات نماز پڑھتا ہے دن کو روزہ رکھتا ہے تاکہ بزرگ اور نیک لوگ اس کے پاس زیارت کو آنے لگے 

اور اتنا مجاہدہ اس نے شروع کر دیا کہ لوگ اس کو اپنے حال پر رحم کھانے اور مُشقت میں کمی کرنے کی فرمائش کرتے ہیں اور اس کو سمجھاتے کہ اللہ تعالی بہت کریم ہے وہ تھوڑی محنت پر بہت زیادہ اجر عطا فرمائے گا مگر وہ کہتا کہ دوستو میرا حال مُجھی کو معلوم ہے میں نے اپنے مولا کی نافرمانی کی بڑے سخت سخت گناہ کیے ہیں

 یہ کہہ کر وہ رونے لگتا اور خوب روتا  اسی حالت میں ننگے پاؤں پیدل حج کو نکل گیا ایک موٹا کپڑا بدن پر تھا ایک پیالہ اور ایک تھیلا سا تھا اسی حالت میں مکہ مکرمہ پہنچا اور حج کے بعد وہیں قیام کر لیا وہی ان کا انتقال ہوا مکہ کے قیام میں رات کہتا میرے مولا میری کتنی خلوتیں ایسی گزر گئی جن میں، میں نے تیرا خیال نہ کیا میں نے کتنے بڑے بڑے گناہوں سے تیرا مقابلہ کیا میرے مولا میری نیکیاں ساری جاتی رہی 

کچھ بھی نہ کمایا اور میرے گناہ میرے ساتھ رہ گئے ہلاکت ہے میرے لیے اس دن جس دن تُجھ سے ملاقات ہوگی جس دن مرنے کے بعد میرے لیے ہلاکت پر ہلاکت ہے یعنی بہت ہی زیادہ ہلاکت اس دن جس دن میرے اعمال نامے کھولے 


Post a Comment

0 Comments