( آدم علیہ السلام کا بنایا جانا حضرت علی کا بیان (خطبہ نہج البلاغہ
کائنات بنانے کے بعد اللہ نے سخت، نرم، میٹھی اور شور زمین سے مٹی جمع کر کے اسے گیلا کیا اور اس میں خمیر آنے دیا یہاں تک کہ وہ اچھی طرح گُھل مل گئی اس سے ایک ایسی صورت بنائی جس میں آڑی ترچھی ہڈیاں تھیں جس کے حصے تھے جوڑ تھے اور پٹھے تھے پھر اس سے ایک خاص وقت تک رکھا یہاں تک کہ اس کے کچھ حصے ٹھوس ہونے لگے اور مضبوط ہوتے ہوتے پکے ہو گئے اور اپنا بوجھ خود اٹھانے لگے یہ سلسلہ کچھ عرصے چلتا رہا جس کے بعد اس میں روح پھونک دی گئی
اور وہ انسان بن کر اُٹھ کھڑی ہوئی ایسا انسان جس میں ذہانت تھی سوچ بچار کی قوت تھی اور جو اپنی عقل سے صحیح اور غلط کو پہچان سکتا تھا وہ ذائقوں کو جان گیا رنگوں کو پہچاننے لگا وہ محسوس کرنے لگا اور چیزوں میں تمیز کرنے لگا وہ جن چیزوں کے ملنے سے بنا تھا اُن میں کچھ تو ایک دوسرے سے بالکل جُدا اور کچھ ایک دوسرے سے ملتی جُلتی بھی تھی اس طرح اس میں گرمی، سردی، تری اور خشکی سب اکٹھے ہو گئے
پھر اللہ نے فرشتوں سے چاہا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں اور انہوں نے آدم کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنے سے بڑھ کر ماننے کا جو پیمان کیا تھا اب اس پر عمل کریں چنانچہ اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں ابلیس کے سوا سب ہی جھک گئے اس نے آدم کے سامنے سجدہ اپنی شان کے خلاف سمجھا اُسے سب نے گھیر لیا اور اس پر بدبختی چھا گئی آگ سے پیدا ہونے کی وجہ سے وہ خود کو بڑا سمجھ بیٹھا اور وہ جو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے بنا تھا
اُسے اپنے رب سے کم تر سمجھا اللہ نے اِسے مہلت دی تاکہ وہ اچھی طرح عذاب کا مستحق بن جائے لہذا اللہ نے اسے اس دن تک کے لیے چھوڑ دیا جس روز سب کا حساب لیا جائے گا پھر خُدا نے آدم کو ایسی جگہ رکھا جہاں زندگی کے سارے آرام موجود تھے اور ہر طرح کا چین اور سکون تھا ساتھ ہی انسان کو سمجھا دیا گیا کہ ابلیس تمہارا دشمن ہے اس سے ہوشیار اور چُکنّےرہنا لیکن موقع پا کر شیطان نے آدم کو دھوکہ دے ہی دیا
وہ اس بات پر جل اُٹھا کے آدم کو جنت میں رہنے کا ٹھکانہ کیوں ملا , آدم نے اپنا یقین بیچ کر شک اور شعبہ خرید لیا اور وہ جو اسے پختہ ارادہ دیا گیا تھا اُسے چھوڑ کر کمزوری لے لی کہا اُسے خوشی حاصل تھی کہاں اِس نے خوف قبول کر لیا اس نے دھوکہ کھانا منظور کر لیا جس کے بعد اسے شرمندگی ہی شرمندگی ہی ملی یہ دیکھ کر اللہ نے آدم کو توبہ کا موقع دیا اور اسے اپنے رحم کے کلمے سکھائے اور جنت میں لوٹانے کا وعدہ کیا
لیکن کچھ عرصے کے لیے اسے ایسی جگہ اتار دیا جہاں محنت تھی، روزی کی فکریں تھی اور جہاں اس کے بچے پروان چڑھ سکتے تھے اور نسل بڑھ سکتی تھی اللہ نے ان کی اولاد سے نبی چُنے اور ان سے اپنے بندوں تک اپنے حکم پہچاننے کا وعدہ لیا اور اُنہیں اپنا پیغام پھیلانے کی امانت سونپی لیکن اکثر بندے اللہ سے کیے ہوئے وعدوں سے بھر گئے وہ سچائی کو بُھلا بیٹھے اور دوسروں کو خُدا ماننے لگے یہ سب شیطان کا کیا دھرا تھا جس نے انہیں عبادت سے روک دیا اللہ نے لگاتار نبی بھیجے تھے کہ لوگوں سے ان کی تخلیق کے وقت کیے گئے
وعدے پورے کرائیں اس کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں انہیں سیدھا راستہ دکھانے کا فرض ادا کریں انہیں عقل کے غبار میں چھپ جانے والے ذہانت کے خزانے دوبارہ کام میں لانے کا سبق پڑھائیں انہیں سروں پر چھائے ہوئے آسمان میں موجود نشانیاں دکھائیں زمین میں دفن نشانیاں سمجھائیں اور انہیں بتائیں کہ زندگی کیسے سدھرتی ہے اور مہلت سے فائدہ نہ اٹھانے والے کیسے فنا کے گھاٹ اتر جایا کرتے ہیں
بہت زیادہ رنج اور غم ہو تو ان کی عمر کیسے گھٹ جاتی ہے اور یہ کہ افتیں لگاتار کیوں نازل ہوتی ہیں اور ایک کے بعد ایک حادثے کیوں ہوتے رہتے ہیں خدا نے کبھی انسان کو نبی رہنما اور رہبر کے بغیر نہیں رہنے دیا آسمانی کتاب کے بغیر نہیں چھوڑا اور کسی کو اپنے رب ہونے کے ثبوت اور روشن راستوں کے نشان دکھائے جانے سے محروم نہیں رکھا اس نے ایسے رسول بھیجے جو تعداد میں کم تھے اور جنہیں جُھٹلانے والے بہت تھے
مگر وہ ان سے کبھی تنگ نہیں آئے ان رسولوں میں کوئی پہلے آیا جس نے بعد میں آنے والے کا نام و نشان بتایا اور کوئی بعد میں آیا جس کی خبر پہلے والا دے کر جا چُکا تھا اسی طرح مدتیں گزر گئیں اور زمانے بیت گئے باپ داداؤں کے جگہ ان کی اولادیں بس گئیں یہاں تک کہ اللہ نے اپنا عہد پورا کیا اور نبی بھیجنے کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو زمین پر بھیجا جن کے بارے میں پہلے والا ہر نبی بتا چکا تھا
کہ وہ کب اور کیسے ائیں گے اس وقت زمین پر بسنے والوں کے طریقے جدا جدا تھے خواہشیں الگ الگ تھیں راستے اپنے اپنے تھے یوں کہ کچھ تو اللہ کو عام لوگوں جیسا سمجھنے لگے کچھ اس کے ناموں کو بگاڑنے لگے اور کچھ اسے چھوڑ کر اوروں سے لو لگانے لگے خداوند عالم نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے ہاتھوں انہیں گمراہی سے بچایا سیدھے راستے پر لگایا اور اپنے رسول کے ذریعے انہیں جہالت کے اندھیرے سے نکالا
اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے قریب جگہ دینے کے لیے چُنا ان پر اپنی خاص مہربانیاں کی اور انہیں دنیا میں رہنے والوں سے اونچا سمجھا انہیں سختیوں سے ازاد کیا اور عزت و احترام کے ساتھ اُٹھا لیا ان حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تم میں اسی طرح کی چیزیں چھوڑ گئے جو تمام نبی اپنی اُمتوں میں چھوڑتے چلے آئے تھے ان میں سے کسی نے اپنی قوم کو صاف اور دل میں بیٹھ جانے والی نصیحتوں اور آسانی سے پہچانی جانے والی نشانیوں کے بغیر نہیں چھوڑا تھا
اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمہارے لیے اللہ کی کتاب چھوڑی اس کے علاوہ اپنی زندگی میں انہیں انہوں نے پوری طرح سمجھا دیا کہ اس کتاب نے کس چیز کو حلال اور کسے حرام قرار دیا ہے انہوں نے بتا دیا کہ تم پر کیا لازم ہے کون سا حکم باقی رہے گا کون سا منسوخ ہوا کہاں رعایت ہو سکتی ہے اور کہاں اسے رحم کرنے والے نے چھوٹ دی ہے اور نرمی بڑھتی ہے کون سی ہدایت کسی خاص موقع یا آدمی کے لیے ہے اور کون سا حکم ہر ایک کے لیے ہر جگہ کے لیے اور ہمیشہ کے لیے ہے انہوں نے یہ بھی سمجھا دیا کہ کس بات سے عبرت حاصل کی جائے
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مثالیں دے کر اصول بھی سمجھائے یہ بھی بتا دیا کہ کون سی ہدایت صاف اور سمجھ میں آنے والی ہے اور کون سی اُلجھی ہوئی اور سمجھ میں آنی مشکل ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ آیتیں بھی سمجھا دیں جن کے معنی تفصیل چاہتے ہیں اور آیتوں کی گہرائیوں کو بھی ظاہر کر دیا اس میں کچھ آیتیں وہ ہیں جن کے جانب بغیر چارہ نہیں اور ایسی بھی ہیں جن سے بندے اگر ناواقف رہیں تو کوئی کام نہیں رُکتا
وہ حکم بھی بتایا کہ جو فرض ہے اور کتاب سے ثابت ہے کہ ہے اور وہ بھی جو منسوخ ہے اور سُنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ظاہر ہے وہ باتیں بھی بتائیں جن پر حدیث کی رو سے عمل واجب ہے مگر کتاب میں ان کے ترک کی اجازت ہے اور وہ بھی جو کسی خاص وقت کے لیے واجب ہے اور اس کے بعد واجب نہیں رہتی قرآن میں جو باتیں ہیں ان میں بھی فرق ہے کچھ کی معافی نہیں اور جن کے بدلے دوزخ کی آگ سے ڈرایا گیا ہے اور کچھ چھوٹے گُناہ اور گمراہیاں ہیں جن کی معافی کی اُمید دلائی ہے ایسے حکم بھی ہیں جن پر تھوڑا سا عمل بھی قبول ہے اور انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جتنا چاہے عمل کر لے
0 Comments